Pages

Monday, August 13, 2012

ہنس کے اتنے پھول وہ برسا گئے


غزل
(ؔمزمل شیخ بسمل)

ہنس کے اتنے پھول وہ برسا گئے
میرے آنسو اپنی قیمت پا گئے

دل میں وہ اک آگ سی بھڑکا گئے
ہے وظیفہ اب یہی وہ آ گئے

اپنے غم دیکر مجھے وہ کیا گئے
میرے مہماں اور مجھ کو کھا گئے

کم سنی میں مجھ کو ان سے دکھ نہ تھا
اب جواں ہو کر تو وہ اترا گئے

ان سے چٹم چوٹ کچھ مہنگی نہ تھی
دوستی کرکے تو ہم اکتا گئے

کیا طریقہ گفتگو کا تھا وہاں
ہو کے ہم با ہوش دھوکا کھاگئے

کوئی تو دیکھے مری بیچارگی
ظلم وہ اس جاں پے کتنے ڈھا گئے

مجھ کو ہر شے میں وہی آئے نظر
کائناتِ زندگی پر چھا گئے

مر کے بسمؔل کو ملی کامل حیات
قبر پے ٹسوے بہانے آگئے

No comments:

Post a Comment