غزل
(ؔمزمل شیخ بسمل)
اہلِ زباں نہیں تھے سخن ور میں کچھ نہ تھا
الفاظ کے معانی و مصدر میں کچھ نہ تھا
جز کشت و خون اس کے مقدر میں کچھ نہ تھا
کیا لے گیا ہے دستِ سکندر میں کچھ نہ تھا
پینے کی ابتدا ہوئی ساقی کی آنکھ سے
کہتا ہے دور مینہ و ساغر میں کچھ نہ تھا
اسکا تو آب آبِ بقا پے ہے طعنہ زن
کیا کہہ رہے ہیں آپ کے خنجر میں کچھ نہ تھا
پرواز سے تو میری برستا رہا ہے ہن
سیّار نے جو قید کیا پر میں کچھ نہ تھا
جس شے میں ہے چمک وہ اسی کے دیئے کی ہے
جب آنکھ بند تھی کسی اختر میں کچھ نہ تھا
تر دامنی میں ڈوب کے ایسا ہوا صفا
روزِ حساب جرم کے دفتر میں کچھ نہ تھا
سرمہ مرے گناہ کا اسود نے لے لیا
نزدیک اسکے طور کے پتھر میں کچھ نہ تھا
قولِ خطیب تولے ہیں میزانِ حق پہ جب
تقلید کے مساجد و منبر میں کچھ نہ تھا
گویا ہے پاس ہی کوئی محسوس یہ ہوا
منہ پھیر کر جو دیکھا برابر میں کچھ نہ تھا
کھوج اسکا پا لیا ہے یہ ہے وقت کی صدا
جا بدنصیب تیرے مقدر میں کچھ نہ تھا
جس سے جو چاہا کام لیا اسکی شان ہے
بسمؔل بغیر اسکے قلندر میں کچھ نہ تھا
No comments:
Post a Comment