Pages

Thursday, December 6, 2012

بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے

غزل 
(مزمل شیخ بسمل) 

بن گئے عالم بھی عامل بھی نہیں کامل بنے 
لٹ گئی ہے اپنی ہستی جب کسی قابل بنے 

دورِرشوت ہے یہاںپر کس طرح عادل بنے 
حکمراں بیٹھے ہیں حالِ ملک سے غافل بنے 

سمجھے بھائی ہم جنھیں اب وہی تو قاتل بنے 
رونقِ گلشن ہے ہم سے اسلئے بسمل بنے 

عارضی حب کا کروں کیا جسمیں پنہاں بغض ہے 
ایسا تو مطلوب ہے جو زیست کا حاصل بنے 

اسکو دیکھا تو غشی طاری ہوئی کیا بات ہے 
روئے تاباں ہے تجلّی طور رخ کا تل بنے 

اسکی دھرتی میں ہر اک سامان تھا محفل نہ تھی 
ہم کو بھیجا ہے اسی مقصد سے یہ محفل بنے 

کیا بتاؤں تم کو منزل کا پتا اہلِ حیات 
کارواں انفاس کا لٹ جائے تو منزل بنے 

بے حجابی کے لئے کوئی حجاب اچھا نہیں 
چاہیے غیرت کہ جس سے ہر جگہ محمِل بنے 

مردِ مؤمن کا حوادث سے کہیں پھرتا ہے منہ 
ڈال دے کشتی جدھر طوفان میں ساحل بنے 

آب ہو توحید کا اخلاص کا صابن ملے 
تقوے کی صافی پھرے تو مثلِ شیشہ دل بنے 

آج صوفی کو تصوّف کو ضرورت بھی نہیں 
ہے عقیدت ان سے بھی آئینہ جن کے دل بنے 

سوچتا ہوں کیسے کیسے اہل تھے اشراق کے 
اب تو یہ چکر ہے گھر با صوفہ و ٹیبل بنے 

چارہ گر کہتا ہے چھوڑونگا نہیں آئے شکار
ہے مریضِ نزلہ اب تودق بنے یا سل بنے 

اشرف المخلوق ہونے کی منائیں کیا خوشی 
زندگی کے دن ہمارے واسطے مشکل بنے 

بات سچی ہے برا بھی ماننا بیکار ہے 
ہاں مگر نادا ں کے حق میں بات یہ فل فل بنے 

محلرؔو چاسرؔ مرامرؔ رودؔ خسروؔ اور خلیلؔ 
پیر دھو دھو کر پئیے انکے تو جب کامل بنے 

خود بخود آزار بودی خود گرفتار آمدی 
موت کی دعوت جو دے وہ کسطرح عاقل بنے 

دورِ فاروقی اگر لوٹ آئے بسمل آج پھر 
ہر نظر حق آشنا ہو ہر نفس منزل بنے

No comments:

Post a Comment