Pages

Thursday, December 6, 2012

ہجر میں کس کام کے بے وصل پیمانے بہت

غزل
(مزمل شیخ بسملؔ)

ساقی ہو پہلو میں کیا کرنے ہیں میخانے بہت
ہجر میں کس کام کے بے وصل پیمانے بہت

زلف میں دل کو مرے آتے ہیں الجھانے بہت
انکی زلفیں الجھیں تو سلجھانے کو شانے بہت

دیکھی آدم نے شبی بے دیکھے پہچانے بہت
ورنہ گندم سے الگ جنت میں تھے کھانے بہت

خم لگا کے منہ سے پی جاتے تھے مستانے بہت
ہم نے توڑے ہیں تری محفل میں پیمانے بہت

وہ پروئے گوہرِ اشکِ ندامت آنکھ نے
تار تو تسبیح کا چھوٹا ہے پر دانے بہت

اب نشیمن ہم نے بنوایا ہے دیکھو چاند پر
چار تنکوں پر تو آئی برق لہرانے بہت

وہ نظر آئے کہیں جو خواب میں دیکھا کہیں
ماہ رو اس شوق سے دیکھے زلیخا نے بہت

صبح تک شب کی سیاہی ختم ہوجاتی ہے سب
جب بھی لکھنے کے لئےبچتے ہیں افسسانے بہت

شمع عریانی میں محفل پر نہ ہو جائے عیاں
رقص یوں کرتے ہیں ساری رات پروانے بہت

تربیت ملتی ہے اب نسلِ ہما کو زاغ کی
نام پر اسلام کے ہیں کفر کے گانے بہت

اے چمن کے باغباں اب عدل کی حد ہوگئی
زاغ کی ہیں چونچ میں انگور کے دانے بہت

جب دھواں گٹھتا ہے آہوں کا مرے سینے میں تب
آتی ہیں غم کی گھٹائیں اشک برسانے بہت

مرتا ہے بسمل ہر اک بہتر ہے اب کلمہ پڑہو
میں نے اتنی بات کہہ دی تھی برا مانے بہت

3 comments:

  1. سبحان اللہ۔۔۔
    آپ کی تحریریں بہت عمدہ ہیں، ما شا اللہ۔
    عرض ہے کہ آپ اپنی مزید تحریریں بھی اس بلاگ کے ذرئعے ہمیں عنایت فرمائیں۔
    ہو سکے تو تمام غزلیں۔
    اگر آپ کے مزاج کو بہتر لگے تو۔۔۔

    ReplyDelete